مال ، صحت اور سکون
اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے مال ، صحت اور سکون بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ جس کو اللہ کی نعمتیں میسر ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے. تاکہ اللہ تعالیٰ ان میں مزید اضافہ اور برکتیں عطاء فرماتے رہیں۔ ہمارے معاشرے میں اسلام کی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے یا اسلام کی غلط تشریحات کا اثر ہے کہ ہم اللہ کی بعض نعمتوں کے بارے منفی سوچ رکھتے ہیں، مثلاً ہمارے ہاں یہ سمجھا جاتاہے کہ جس کے پاس مال و دولت ہو وہ ’’دنیا دار‘‘ ہے اور جس کے پاس نہ ہو وہ ’’دین دار ‘‘ ہے، حالانکہ مطلقا ً یہ تقسیم درست نہیں۔
اور اگر مال و دولت کی کثرت نہیں بلکہ معمولی مقدار میں پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ عبادات میں رکاوٹ بنتا ہے تو یہ ’’دنیا‘‘ ہے جس کی احادیث مبارکہ
میں مذمت بیان کی گئی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک گیلا تھا(یعنی غسل کر کے تشریف لائے تھے) ہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ آپ بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں۔
مال و دولت کے بارے میں چند باتیں ذہن نشین رکھنی چاہییں۔
… مال کو حلال اور جائز طریقے سے حاصل کریں۔ ناجائز اور حرام ذرائع آمدن سے بچیں، جیسا کہ فراڈ ، دھوکہ ، سود ، جھوٹ ، جھوٹی قسمیں اور غیر شرعی طریقہ معاملات ہیں۔ یاد رکھیں مال تو ناجائز اور حرام ذرائع سے بھی مل جاتا ہے لیکن اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے خدا کی ناراضگی اس میں داخل ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے بیماریاں ، لڑائی جھگڑے ، بے چینی و بے سکونی ، ذہنی ڈپریشن اور اولاد بے ادب اور نافرمان بن جاتی ہے۔
… مال کے ساتھ جن حقوق اللہ کا تعلق ہے ان کو بروقت ضرور کریں۔ واجبی صدقات جیسا کہ زکوٰۃ ، قربانی ،عشر ، صدقہ فطر وغیرہ ہیں ان کو اپنے وقت پر خوشی کے ساتھ ادا کریں۔
… مال کے ساتھ جن حقوق العباد کا تعلق ہے ان کی ادائیگی برقت کریں۔
… مال کو فضول خرچی سے بچائیں۔ ایک بات اچھی طرح یاد رکھیں جہاں ضرورت ہو وہاں ایک لاکھ بھی خرچ کرنا گناہ نہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں ایک روپیہ بھی خرچ کرنا گناہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں نام و نمود اور شہرت کے حصول کے لیے مال کو ضائع کیا جاتا ہے۔ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا دونوں میں فضول خرچی دیکھنے کو ملتی ہے ، خصوصاً شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ضرورت سے زائد اتنا زیادہ خرچ کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ۔
مذکورہ بالا حدیث مبارک میں مال کے بعد صحت کا تذکرہ ہے کہ خوف خدا رکھنے والے انسان کے لیے مال سے بھی بڑھ کر صحت و تندرستی زیادہ بہتر ہے۔
حقوق العباد کی ادائیگی میں صحت کو بہت دخل ہے۔
ٍ حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ متقی شخص کو مال سے زیادہ اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے ایسی غذائیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہوں ، جو جسم میں بیماریاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں ان کے بجائے سادہ اور اچھی غذاکا استعمال کرناچاہییمزید یہ کہ جسم کو چست اور تندرست رکھنے کیلیے ورزش کرنی چاہیے۔
یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ صحت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ہے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور صحت کا شکر یہی ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی سے دور رہے اور اپنے جسم کو شریعت اسلامیہ کے احکامات پر عمل کرنے میں لگائے لیکن ہماری کوتاہی ہے کہ ہم صحت کو اپنا کمال سمجھ کر اللہ کی نافرمانیوں میں لگ جاتے ہیں۔
ٍ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مال و دولت ، صحت و تندرستی اور سکون واطمینان جیسی
ٍ حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ متقی شخص کو مال سے زیادہ اپنی صحت کا خیال رکھنا چاہیے ایسی غذائیں جو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق نہ ہوں ، جو جسم میں بیماریاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں ان کے بجائے سادہ اور اچھی غذاکا استعمال کرناچاہییمزید یہ کہ جسم کو چست اور تندرست رکھنے کیلیے ورزش کرنی چاہیے۔
یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ صحت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ہے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور صحت کا شکر یہی ہے کہ انسان گناہوں والی زندگی سے دور رہے اور اپنے جسم کو شریعت اسلامیہ کے احکامات پر عمل کرنے میں لگائے لیکن ہماری کوتاہی ہے کہ ہم صحت کو اپنا کمال سمجھ کر اللہ کی نافرمانیوں میں لگ جاتے ہیں۔
ٍ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مال و دولت ، صحت و تندرستی اور سکون واطمینان جیسی
نعمتوں سے مالا مال فرمائے اور فقر و تنگدستی ، بیماریوں اور پریشانیوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
0 Comments